بلند حوصلے۔۔۔۔۔۔ قائدانہ سوچ
ان ننھے قائدوں کو میرا سلام ۔۔۔۔۔
(مدثر حسن مرچال)
بچوں کے چہرے پر اداسی اور پریشانی صاف طور پہ جھلک رہی تھی۔ وہ خاموش تھے لیکن ان کی خاموشی اپنے آپ میں بہت کچھ کہہ رہی تھی۔ ابھی حالات کچھ زیادہ خراب نہیں تھے۔ لہذا میں نے بچوں کی اس پریشانی اور ان کے اس ڈر کو اندیکھا کرتےہوئے اپنا لیکچر شروع کر دیا۔ ابھی لیکچر شروع ہی ہوا تھا کہ اچانک باہر سے دوبارہ ایک زبردست شور سنائی دیا۔ یہ شور نعرے بازی، اور چیخ و پکار کا تھا۔ حالانکہ نعرے بازی اور دھرنا کا سلسلہ قریبا ایک گھنٹے سے جاری تھا لیکن اس بار اس میں شدت آنے لگی۔ میں کھڑکی سے باہر کا وہ نظارہ دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ باہر کا نظارہ کسی بھی انسان کو خوف زدہ کر دینے والا تھا۔ لہذا بچوں کا خوفزدہ ہو جانا لازم بات ہے۔ اسکول کے صدر دروازے پر ماحول نہایت تناو بھرا تھا۔ میں نے مڈ کر کلاس میں موجود بچوں کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھیں پرنم تھیں۔ وہ حواس باختہ اور ڈرے ہوئے تھے۔ ان کا ڈر اس قدر بڑھ گیا تھا کہ وہ اب اپنی نشستوں پر بھی نہیں تھے۔ وہ سہمے ہوئے تھے۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہہ پاتا چند بچے رونے لگے۔ اگرچہ سبھی بچے پریشان اور الجھے ہوئے تھے لیکن اکثر بچوں نے اپنے آنسوںوں پر اور اپنے ڈر پہ قابو پانے کی ایک نامکمل سی کوشش کی۔ یہ ڈر لازم بھی تھا کیوںکہ صدر دروازے پہ جس انداز سے دھرنے پر بیٹھے لوگ غم و غصے کا اظہار کر رہے تھے چند ہی لمحوں میں ان کا ادارے میں داخل ہونا ممکن تھا۔ اور اسکول کے اندر کا ماحول بھی بگڑھ سکتا تھا۔ در اصل یہ احتجاج قصبے میں قائم کئی تعلیمی اداروں سے وابستہ طلباء کا تھا جو حکومت کی طرف سے ہونے والے تشدد اور زیادتیوں کے خلاف صدائے آواز بلند کر رہے تھے اور مطالبہ کر رہے تھے کہ ان کے گرفتار شدہ ہم جماعتیوں اور دوستوں کو رہا کیا جائے۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہ احتجاجی طلباء چاہتے تھے کہ ہمارے ادارے سے بھی بچے نکل کر ان کے ساتھ شامل ہو جائیں۔ اب اسکول کی انتظامیہ نے جب بچوں کے تحفظ کا اور والدین کے بھروسے کا لحاظ کرتے ہوئے معزری ظاہر کی تو احتجاجی طلباء تیش میں آئے۔ ادارے کی انتظامیہ حق بہ جانب قدم اٹھا رہی تھی لیکن دوسری طرف احتجاجی طلباء کے مطالبے کو بھی غلط نہیں مانا جاسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ احتجاجی طلبہ اسکول گیٹ پر احتجاج کے طور دھرنے پہ بیٹھے تھے اور بیچ بیچ میں ادارے میں داخل ہونے کی کوشش بھی کر رہے تھے۔ اسی بیچ جب نیم فوجی دستے کی گاڈیاں جو پہلے سے ہی احتجاجیوں کے تعاقب میں تھی ان کی طرف بڑھنے لگیں تو پتھراو کی شروعات ہوئی۔ اس سے ڈر اور خوف میں اظافہ ہوا۔ بلکہ اسکول کے چند شیشے بھی چکنا چور ہوئے۔
بہر کیف بچوں کے اس ڈر کو کیسے دور کیا جائے اس کے لئے مجھ سے جو بن پایا میں کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ لگ بھگ سبھی اساتذہ اپنی اپنی کلاسوں میں اسی طرح کی پریشانیوں سے جوجھ رہے تھے۔ میں نے اول تو بچوں کو خوب دلاسہ دینے کی کوشش کی۔ انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے لیکن سب بے کار۔ اس کا تو یوں اثر ہوا کہ بچے اور زیادہ زور زور سے رونے لگے۔ اب بچوں کو ڈانٹنا بھی غلط تھا۔ لہذا میں لگ بھگ ناکام ہوا۔ اتنے میں ایک معصوم سی بچی جو کہ اکثر مجھ سے اچھے خاصے سوالات پوچھا کرتی تھی کہنے لگیں کہ وہ کلاس کی باقی بچیوں کو دلاسہ دینے اور انہیں اس ڈر سے باہر نکالنے کے لئے میری مدد کرنا چاہتی ہیں۔ میں اول تو حیران ہوا لیکن پھر جلد ہی اس نتیجے پہ پہنچا کہ میرے پاس اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔ بچیوں کو کسی طرح اس ڈر سے نکالنا تھا اس لئے میں نے اس بچی کی اس پیشکش کو منظور کر لیا۔ یہ شاید پہلی بار تھا کہ میں کسی بچے سے مدد لے رہا تھا۔ بہر کیف جانے ان جانے میں شاید میں نے بر وقت ایک صحیح قدم اٹھایا۔ یا یوں کہیں کہ اس بچی نے عین وقت ایک بہترین پیشکش کی۔ وہ لڑکی جب کلاس میں سب کے سامنے کھڑی ہوئی تو مجھے یوں لگا جیسے وہ ایک تجربہ یافتہ استاد ہو۔ اس نے بچیوں کو کچھ پہیلیاں پوچھ پوچھ کے ذہنی طور مصروف رکھنے کی کوشش کی۔ اس سے ہوا یہ کہ باقی بچیوں نے جب اپنے ہی اندر کی ایک اپنی جیسی لڑکی کو ہمت کے ساتھ بات کرتے ہوئے دیکھا تو ان کہ بھی ہمت بڑھنے لگی۔
اس لڑکی نے اس کے بعد اپنی کلاس میٹس سے چند دلچسپ سوال پوچھے ، جیسے کس استاد میں کون سی خوبی ہے؟ اس اسکول میں کیا کیا اچھا ہے؟ اور آپ کو باقی اسکولوں میں اور اپنے اسکول میں کیا فرق محسوس ہوتا ہے؟وغیرہ وغیرہ۔
یہ سوالات بھلے ہی بچگانہ تھے لیکن اس لڑکی کی اس ہمت نے ہی باقی بچوں کی ہمت بڑھانے میں مدد کی۔ میں اگرچہ لگاتار باہر کا نظارہ دیکھ رہا تھا اور باقی اساتذہ و دیگر ذمہ داران کے ساتھ رابطے میں تھا لیکن مجھ سے بھی زیادہ ہمت اس بہادر اور نڈر اسٹوڈنٹ نے دکھائی۔ اس کے بعد جب اسے لگا کہ اب سوالات اور جوابات سے بچوں کا وہ ڈر تھوڈا کم ہوا تو اس نے الیکٹرانک بورڈ پہ کچھ دلچسپ ویڈیوز چلا کر بچوں کا دھیان مزید بھٹکانے کی حکمت عملی کی۔ یہ سلسلہ تب تک جاری رہا جب تک حالات پھر سے ٹھیک نہ ہوئے۔
بالآخر میں نے جس انداز سے ان بچیوں کو ان خطرناک حالات سے ایک تجربہ کار انسان کی طرح نمٹتے دیکھا میں بہت ہی متاثر ہوا۔ اللہ تعلی انہیں ہمیشہ خوش رکھے۔ یوں تو ایک استاد کو ہر دن ایک نئی چیز سیکھنے کو ملتی ہے لیکن جو آج میں نے دیکھا شاید آج تک میں نے کبھی کسی بچے میں وہ ہمت وہ حوصلہ اور وہ تجربہ نہیں دیکھا تھا۔
Friday, May 5, 2017
A word of thanks to my angelic friends!!
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment