24th Janvery 2017( Kashmir Uzma)
دسویں کے حوصلہ افزاء نتائج!
مر حبا صد آفرین
مدثر حسن مرچال
حال ہی میں دسویں جماعت کے نتائج منظر عام پر آنے کے فوراََ بعد طرح طرح کی چہ میگوئیاں شروع ہوئیں ۔ طلبہ وطالبات کو ملے گریڈس اور زیادہ اچھے نمبرات کی وجہ سے لوگ بآسانی نتائج کی اعتباریت پہ سوال اٹھانے لگے اور شک کر نے لگے۔ سماجی ویب سائٹوں وغیرہ پہ گرما گرم بحث و تکرار بھی ہوئی کہ ا س کی کیا وجوہات ہیں۔بچوں کو بھاری نمبرات ملنے کے با وجود بھی ایک عجیب ذہنی کشمکش سے گزرنا پڑا ۔ اگرچہ انہیں اعلیٰ درجہ کامیابی ملنے پر حوصلہ افزائی کا حق ملنا واجب ہے مگر اُن کی کامیابی کو ہی شک کی نظر سے دیکھا جائے تو ان کو کتنی ذہنی کو فت ہوگی ۔ رواں برس کشمیر میں دسویں جماعت کے امتحانات میں شریک ہونے والے طلبہ وطالبات کی تعداد 60,000تھی جن میں کامیاب ہونے والوں کی شرح 83%رہی۔ کامیاب ہونے والوں میں 3413 نے% 90-100 نمبرات کے ساتھ A1 درجہ حاصل کیا، 7898 بچوں نے 80-89% نمبرات حاصل کرکے A2 زمرے میں جگہ بنالی جب کہ 9353 طلباء نے B1 درجے میں کامیاب ہوکر 70-79% نمبرات حاصل کئے۔نتائج پہ سوال اٹھانے سے پہلے یا امتحانات کی اعتباریت پہ رائے زنی کی جائے، نیز سال گزشتہ کے پانچ ماہ میں بچوں کو کن مشکلات کا سامنا رہا جن کے بیچ انہیں امتحانات کی تیاری کے لئے مجبور ہونا پڑا۔ پانچ ماہی عوامی ایجی ٹیشن میں جہاں ہر کوئی شعبہ متاثر رہا، وہیں تعلیم کا شعبہ بھی حد درجہ اثر انداز رہا ۔ تعلیمی ادارے مقفل رہنے سے درس و تدریس کا کام نہ ہو سکا ۔ کوچنگ سینٹر بھی اپنا کام مکمل کئے بغیر ہی بند ہو گئے۔نصاب کا مکمل کرنا نہ ا سکولوں کے بس میں تھا اور نہ ہی پرائیوٹ کوچنگ سینٹروں کے حد اختیار میں۔ یوں نصاب کا چالیس یا پچاس فیصد ہی تکمیل کو پہنچ پایا تھا۔ طلبہ اول تو تذ بذب کے شکار رہے ، وہ پڑھائی لکھائی سے دور رہے۔چاروں اطراف گولیاں، کرفیو ، ہڑتال ، احتجاج، لاٹھی ،پتھراؤ، پکڑ دھکڑ ، اور غیر یقینیت کے سائے میں عوامی پریشانیاںبڑھتی رہیں ، طلبہ بھی ذہنی کوفت کا شکار ہوکر کئی طرح کی الجھنوں میں گھرے رہے۔اِنشاء جیسی سینکڑوں طلباء بصارت سے محروم ہوگئے اور بیشتر زخمی ہوئے،یہاں تک کہ کہیوں کی جان بھی گئی۔ ایسے میں نصاب کو تکمیل تک پہنچانے کی گنجائش ہی نہ تھی۔ حالات اتنے ابتر تھے کہ طلباء کے لئے گھر سے نکلنا بھی دشوار ہوگیا۔ اسی بیچ جب سرکار نے اچانک امتحان کو منعقد کرنے کے لئے نوٹیفکیشن جاری کیاتو والدین سمیت سب لو گ سکتے میں آگئے۔ سے جڑا کم و بیش ہر شخص سکتے میں آگیا۔اب مہینوں پہلے ادھورا چھوڑے ہوئے نصاب کو مکمل کرنے کی دوڑ ایک بار پھر شروع ہوئی۔سخت بندشوں ، ہرتال اور کرفیو کے باوجود طلباء کے والدین آس پڑھوس میں اساتذہ اور پڑھے لکھے افراد کی تلاش میں نکل کر اپنے بچوں کو امتحان کے لئے تیار کرنے کی خاطر فکرمند ہو گئے۔ اگرچہ کچھ بچوں نے جیسے تیسے اپنا نصاب مکمل کیا بھی لیکن بچوں کی ایک کثیر تعداد اب بھی در بہ در ہی رہی۔وادی کے سرمایہ داروں نے اپنے بچوں کو وادی سے باہر کئی نامی ٹیوشن سینٹروں میں بھیج کر ان کے لئے امتحان میں کامیاب ہونے کی راہ ہموار کر دی۔ادھر ٹیوشن کی عدم دستیابی نے عام طلباء کو اس قدر پشیماں کر دیا کہ انہیں امتحان میں شامل نہ ہونے میں ہی آفیت نظر آنے لگی اور اسی غرض سے امتحان بائیکاٹ کے نعرے بلند ہوئے۔لیکن کشمیر میں کسی بھی سرکاری ادارے یا بورڈ پر سیاست کو ہی ترجیح ملتی ہے ۔یہاں کسی بھی ادارے کے لئے کام کاج کا لائحہ عمل سیاسی قلمدانوں سے تیار ہو کر آتاہے۔ دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات نے بھی سیاسی روپ ہی اختیار کیا۔ایک طرف بغیر تیاری اور تکمیلِ نصاب کے امتحانات کرانے کے خلاف بچوں کی صف میں شانہ بہ شانہ نیشنل کانفرنس اوردیگر جماعتیں کھڑی نظر آنے لگیں اور دوسری طرف بچوں کی منشا ء کے خلاف امتحانات کو منعقد کرانا پی ڈی پی اور بی جے پی کی ملی جلی سرکار کے لئے انا کا معاملہ بن گیا۔ اخباری بیانات اور جوابی بیانات کا سلسلہ بڑی دیرجاری رہا ، اس بارہ میں اور خدشات اور تشویشات کا بھی اظہار کیا جاتارہا۔اسی رسہ کشی اور کھینچا تانی کے بیچ امتحانات کے لئے Date sheet جاری ہوا۔ بالآخر ’’مارچ میں امتحان‘‘ کا سلوگن ترک کر کے طالب علموں کو پی ڈی پی اور بی جے پی کے سیاسی اغرض کے سامنے سر تسلیم خم کر کے امتحان میں حصہ لینا ہی پڑا ۔ حکومت نے طلبہ کو رجھانے اوراپنی ’’میں نہ مانوں‘‘ کا دبدبہ منوانے کو ایک نیا روپ دے کر طلبہ کے لئے کچھ رعایت کا اعلان کیا۔اعلان کے مطابق بچوں کو نصف پرچے حل کرنے کی چھوٹ دی گئی۔ دیکھا جائے تو عام طور پر کسی بھی طالب علم کے لئے اتنی رعایت بہت زیادہ ہے لیکن کشمیری طلباء کے حالات اور چیلنج کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ رعایت کچھ زیادہ نہ تھی لیکن قابل ذکر ہےکہ اس رعایت کی وجہ سے پرچہ جات کو حل کرنے اور پھر ان پرچہ جات کی مارکینگ میں نئے خدشات اور نئی الجھنیں ضرور پیدا ہو گئیں ۔ غرض یہ وہ حالات اور چیلنجز تھے جن کا مقابلہ کرتے ہوئے کشمیری طلباء نے امتحانات کے کٹھن مرحلے کو طے کرکے اپنی ذہانت کا لوہا منوایا اور ایسے پُر آشوب حالات میں ملنے والی امتحانی کامیابی پہ سوال اُٹھا نا قطعی طور غیرمنصفانہ ہوگا۔اس بات سے بھی انکار نہیں کہ طلبہ نے نصاب میں کٹوتی رعایت یا حالات ناجائز فائدہ اُٹھا یا بھی ہو مگر ایسی چیزیں تو عام حالات میں بھی پائی جاتی ہیں ۔ اس سے مجموعی نتائج کی اعتباریت پرسوال نہیں اٹھایا جا سکتااور نہ ہی تمام طلبہ و طالبات کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جا سکتاہے۔ قوم کو چاہیے کہ طلباء وطالبات کو ڈر، اور ذہنی کوفت کے باوجود اپنی قابلیت کا لوہا منوانے پر حوصلہ افزائی ملنی چاہئے۔
رابطہ :ہردوشیواہ، زینہ گیر کشمیر فون
دسویں کے حوصلہ افزاء نتائج!
مر حبا صد آفرین
مدثر حسن مرچال
حال ہی میں دسویں جماعت کے نتائج منظر عام پر آنے کے فوراََ بعد طرح طرح کی چہ میگوئیاں شروع ہوئیں ۔ طلبہ وطالبات کو ملے گریڈس اور زیادہ اچھے نمبرات کی وجہ سے لوگ بآسانی نتائج کی اعتباریت پہ سوال اٹھانے لگے اور شک کر نے لگے۔ سماجی ویب سائٹوں وغیرہ پہ گرما گرم بحث و تکرار بھی ہوئی کہ ا س کی کیا وجوہات ہیں۔بچوں کو بھاری نمبرات ملنے کے با وجود بھی ایک عجیب ذہنی کشمکش سے گزرنا پڑا ۔ اگرچہ انہیں اعلیٰ درجہ کامیابی ملنے پر حوصلہ افزائی کا حق ملنا واجب ہے مگر اُن کی کامیابی کو ہی شک کی نظر سے دیکھا جائے تو ان کو کتنی ذہنی کو فت ہوگی ۔ رواں برس کشمیر میں دسویں جماعت کے امتحانات میں شریک ہونے والے طلبہ وطالبات کی تعداد 60,000تھی جن میں کامیاب ہونے والوں کی شرح 83%رہی۔ کامیاب ہونے والوں میں 3413 نے% 90-100 نمبرات کے ساتھ A1 درجہ حاصل کیا، 7898 بچوں نے 80-89% نمبرات حاصل کرکے A2 زمرے میں جگہ بنالی جب کہ 9353 طلباء نے B1 درجے میں کامیاب ہوکر 70-79% نمبرات حاصل کئے۔نتائج پہ سوال اٹھانے سے پہلے یا امتحانات کی اعتباریت پہ رائے زنی کی جائے، نیز سال گزشتہ کے پانچ ماہ میں بچوں کو کن مشکلات کا سامنا رہا جن کے بیچ انہیں امتحانات کی تیاری کے لئے مجبور ہونا پڑا۔ پانچ ماہی عوامی ایجی ٹیشن میں جہاں ہر کوئی شعبہ متاثر رہا، وہیں تعلیم کا شعبہ بھی حد درجہ اثر انداز رہا ۔ تعلیمی ادارے مقفل رہنے سے درس و تدریس کا کام نہ ہو سکا ۔ کوچنگ سینٹر بھی اپنا کام مکمل کئے بغیر ہی بند ہو گئے۔نصاب کا مکمل کرنا نہ ا سکولوں کے بس میں تھا اور نہ ہی پرائیوٹ کوچنگ سینٹروں کے حد اختیار میں۔ یوں نصاب کا چالیس یا پچاس فیصد ہی تکمیل کو پہنچ پایا تھا۔ طلبہ اول تو تذ بذب کے شکار رہے ، وہ پڑھائی لکھائی سے دور رہے۔چاروں اطراف گولیاں، کرفیو ، ہڑتال ، احتجاج، لاٹھی ،پتھراؤ، پکڑ دھکڑ ، اور غیر یقینیت کے سائے میں عوامی پریشانیاںبڑھتی رہیں ، طلبہ بھی ذہنی کوفت کا شکار ہوکر کئی طرح کی الجھنوں میں گھرے رہے۔اِنشاء جیسی سینکڑوں طلباء بصارت سے محروم ہوگئے اور بیشتر زخمی ہوئے،یہاں تک کہ کہیوں کی جان بھی گئی۔ ایسے میں نصاب کو تکمیل تک پہنچانے کی گنجائش ہی نہ تھی۔ حالات اتنے ابتر تھے کہ طلباء کے لئے گھر سے نکلنا بھی دشوار ہوگیا۔ اسی بیچ جب سرکار نے اچانک امتحان کو منعقد کرنے کے لئے نوٹیفکیشن جاری کیاتو والدین سمیت سب لو گ سکتے میں آگئے۔ سے جڑا کم و بیش ہر شخص سکتے میں آگیا۔اب مہینوں پہلے ادھورا چھوڑے ہوئے نصاب کو مکمل کرنے کی دوڑ ایک بار پھر شروع ہوئی۔سخت بندشوں ، ہرتال اور کرفیو کے باوجود طلباء کے والدین آس پڑھوس میں اساتذہ اور پڑھے لکھے افراد کی تلاش میں نکل کر اپنے بچوں کو امتحان کے لئے تیار کرنے کی خاطر فکرمند ہو گئے۔ اگرچہ کچھ بچوں نے جیسے تیسے اپنا نصاب مکمل کیا بھی لیکن بچوں کی ایک کثیر تعداد اب بھی در بہ در ہی رہی۔وادی کے سرمایہ داروں نے اپنے بچوں کو وادی سے باہر کئی نامی ٹیوشن سینٹروں میں بھیج کر ان کے لئے امتحان میں کامیاب ہونے کی راہ ہموار کر دی۔ادھر ٹیوشن کی عدم دستیابی نے عام طلباء کو اس قدر پشیماں کر دیا کہ انہیں امتحان میں شامل نہ ہونے میں ہی آفیت نظر آنے لگی اور اسی غرض سے امتحان بائیکاٹ کے نعرے بلند ہوئے۔لیکن کشمیر میں کسی بھی سرکاری ادارے یا بورڈ پر سیاست کو ہی ترجیح ملتی ہے ۔یہاں کسی بھی ادارے کے لئے کام کاج کا لائحہ عمل سیاسی قلمدانوں سے تیار ہو کر آتاہے۔ دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات نے بھی سیاسی روپ ہی اختیار کیا۔ایک طرف بغیر تیاری اور تکمیلِ نصاب کے امتحانات کرانے کے خلاف بچوں کی صف میں شانہ بہ شانہ نیشنل کانفرنس اوردیگر جماعتیں کھڑی نظر آنے لگیں اور دوسری طرف بچوں کی منشا ء کے خلاف امتحانات کو منعقد کرانا پی ڈی پی اور بی جے پی کی ملی جلی سرکار کے لئے انا کا معاملہ بن گیا۔ اخباری بیانات اور جوابی بیانات کا سلسلہ بڑی دیرجاری رہا ، اس بارہ میں اور خدشات اور تشویشات کا بھی اظہار کیا جاتارہا۔اسی رسہ کشی اور کھینچا تانی کے بیچ امتحانات کے لئے Date sheet جاری ہوا۔ بالآخر ’’مارچ میں امتحان‘‘ کا سلوگن ترک کر کے طالب علموں کو پی ڈی پی اور بی جے پی کے سیاسی اغرض کے سامنے سر تسلیم خم کر کے امتحان میں حصہ لینا ہی پڑا ۔ حکومت نے طلبہ کو رجھانے اوراپنی ’’میں نہ مانوں‘‘ کا دبدبہ منوانے کو ایک نیا روپ دے کر طلبہ کے لئے کچھ رعایت کا اعلان کیا۔اعلان کے مطابق بچوں کو نصف پرچے حل کرنے کی چھوٹ دی گئی۔ دیکھا جائے تو عام طور پر کسی بھی طالب علم کے لئے اتنی رعایت بہت زیادہ ہے لیکن کشمیری طلباء کے حالات اور چیلنج کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ رعایت کچھ زیادہ نہ تھی لیکن قابل ذکر ہےکہ اس رعایت کی وجہ سے پرچہ جات کو حل کرنے اور پھر ان پرچہ جات کی مارکینگ میں نئے خدشات اور نئی الجھنیں ضرور پیدا ہو گئیں ۔ غرض یہ وہ حالات اور چیلنجز تھے جن کا مقابلہ کرتے ہوئے کشمیری طلباء نے امتحانات کے کٹھن مرحلے کو طے کرکے اپنی ذہانت کا لوہا منوایا اور ایسے پُر آشوب حالات میں ملنے والی امتحانی کامیابی پہ سوال اُٹھا نا قطعی طور غیرمنصفانہ ہوگا۔اس بات سے بھی انکار نہیں کہ طلبہ نے نصاب میں کٹوتی رعایت یا حالات ناجائز فائدہ اُٹھا یا بھی ہو مگر ایسی چیزیں تو عام حالات میں بھی پائی جاتی ہیں ۔ اس سے مجموعی نتائج کی اعتباریت پرسوال نہیں اٹھایا جا سکتااور نہ ہی تمام طلبہ و طالبات کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جا سکتاہے۔ قوم کو چاہیے کہ طلباء وطالبات کو ڈر، اور ذہنی کوفت کے باوجود اپنی قابلیت کا لوہا منوانے پر حوصلہ افزائی ملنی چاہئے۔
رابطہ :ہردوشیواہ، زینہ گیر کشمیر فون
No comments:
Post a Comment